اخلاص کے نقاب میں دھوکا چھپا رہا |
چہرے پہ کوئی اور ہی چہرہ چھپا رہا |
کب رات کو بھی چین میسر مجھے رہا |
بستر میں ایک ہجر کا تکیہ چھپا رہا |
اشکوں کے بیچ جلتے سوالوں کی روشنی |
لفظوں کے درمیاں کوئی قصہ چھپا رہا |
تقدیر سے الجھتے ہوئے دن گزر گئے |
خوشبو کے پیرہن میں بھی کانٹا چھپا رہا |
اک پیاس تھی جو ریت پہ سوئی رہی تمام |
ہر سائے ہر سراب میں صحرا چھپا رہا |
معلومات