سینے میں تھا رکھا جو ، سہارا نہ ہو سکا |
اشکوں میں تھا بھنور بھی کنارا نہ ہو سکا |
پلکوں پہ آ کے رکھ گیا اک رات وہ چراغ |
اور اس کے بعد صبح اشارا نہ ہو سکا |
کتنے سخن نگاہ میں ٹھہرے، بکھر گئے |
پر دل کا حال، حرف میں سارا نہ ہو سکا |
محبوب! اب کتاب سے سن لو کہ کیا کہا |
اپنی زباں سے عشق کا نعرہ نہ ہو سکا |
معلومات