آدم کے دل میں رسمِ عبادت نہیں ہے اب
اندھے ہیں روپ سارے بصارت نہیں ہے اب
دھرتی پہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہمزاد ہے کہاں
چہرے ہیں ایک جیسے شباہت نہیں ہے اب
سجدے غبارِ راہ ، سفر میں سکوں کہاں
پاؤں میں ایک چکر، فراغت نہیں ہے اب
حیرت کہاں حیات میں ، اشکوں میں کب چراغ
آنکھوں میں زندگی کی حرارت نہیں ہے اب
چاہت کا کچھ اثر نہ رہا زندگی پہ اب
رسوائے دہر گرچہ، محبت نہیں ہے اب

0
6