محبتوں کا جہاں پھر سے آشکار ہوا
خیالِ یار سے لمحہ بھی بے قرار ہوا
ہوا کے دوش پہ خوشبو کو ایک راز ملا
کہ جیسے خواب کوئی جاوداں دیار ہوا
سکوتِ شب میں چھپا تھا سخن ہمارا جو
چراغِ دل سے یہ آتش فروغِ نار ہوا
وفا کے رنگ میں ڈھلنے لگے تھے موسم بھی
یہ دل کا داغ بھی گویا گلاب زار ہوا
اگرچہ دیر سے آیا، مگر وہ آیا تھا
وہ دلنشیں کہ مرے خواب کا مدار ہوا
یہ وقت کس کے لیے تھم سکا، بتا اے دل
کہ جو گزر گیا، وہ بھی تو اعتبار ہوا
بچھڑ کے بھی وہ مرے دل میں رہ گیا شاید
کہ جیسے روح کے اندر کوئی قرار ہوا

0
4