شبِ ہجر اک چاند تھا آسماں میں |
جلائے دیا وہ دھڑکتے مکاں میں |
یہ ویران کمرے میں خواہش کے جھالے |
کوئی نقش باقی تھا اب بھی فغاں میں |
مکاں کہہ اُٹھا: "کب قدم کس نے رکھا ؟ |
کہ خوشبو ابھی تک ہے اجڑے جہاں میں" |
کہا چاند نے: "اے اسیرِ تمنا، |
وہ صورت ہے جاوید تیرے گماں میں |
خرابی میں بھی آہٹِ وصل باقی |
محبت کی سرگوشیاں داستاں میں |
اندھیروں کی راتوں میں تُو رو نہ اتنا |
کہ روشن ہے چہرہ ترا آسماں میں |
تری یاد جلتی ہے دیپک کی صورت |
مہک تیری قائم ہے ہر اک نشاں میں |
کوئی اس فسوں کو کہاں تک سنبھالے |
کہ تنہا ہے دل بھی جو تنہا مکاں میں |
معلومات