یہ دنیا خرابوں کی صورت سراسر
یہ خواہش کے دلدل، یہ ظلمت کے منظر
یہاں عقل زنجیر میں قید ہے، اور
یہاں دل کو حاصل نہیں کوئی محور
خرد رہ گئی ہے اسیرِ تکلّف
جُنوں بن گیا ہے اسیری کا جوہر
نظر کو میسّر نہیں رنگِ فردا
فقط سایہ ہائے طلسماتِ مضطر
یہاں آہن و خشت کی بستیاں ہیں
مگر روح خالی، دلِ سنگ پرور
خیالوں میں گُم ہے صدا کی حرارت
یہ ویرانیاں ہیں کہ صحرائے محشر؟
سُبو خالی، دل مثلِ ویرانۂ شام
یہ ہنگامہ، لیکن درونش ستمگر

0
3