Circle Image

ثاقبؔ محمود

@SaqibMehmood

ہوں ایسے دشت میں جس میں کوئی سراب نہیں

جب سے تِرے دیار میں اے دل کوئی نہیں
میں اک سفر میں ہوں، مِری منزل کوئی نہیں
کیسی عجیب بات ہے مقتل میں بیٹھ کر
مقتول کہہ رہا ہے کہ قاتل کوئی نہیں
رک سی گئیں ہیں محفلیں جو علم کی یہاں
لگنے لگا ہے شہر میں جاہل کوئی نہیں

0
37
مِرے ہی اپنے خیالوں میں گم چکا ہے اب اطمِنان میرا
گماں قیامت کا کیوں نہ ہو پھر کہ سرخ ہے آسمان میرا
تُو آ گیا تھا تو بن گیا تھا یہ گھر بھی تب گلستان میرا
مہک گیا تھا ہر ایک جانب سے ان دنوں یہ مکان میرا
وہ جانتا ہے کہ مخلصی سے نہیں ہٹوں گا میں پیچھے پھر بھی
وہ لے رہا ہے ہر ایک پل میں ہزار بار امتحان میرا

0
66
میں ناز دل کے اب اور کب تک اٹھا سکوں گا
کہ چاند تارے تو اِس کی خاطر نہ لا سکوں گا
دو چار چھ شعر بے رخی پہ ہی لکھ دوں گا بس!
وہ جانتا ہے کہ ظلم اتنا ہی ڈھا سکوں گا
تُمہیں بتا دو کہ تم کو پانے کی جستجو میں
میں کونسی حد کو پار کر لوں تو پا سکوں گا

74
نہیں یہ شکوہ کہ پوچھا ہمارا حال نہیں
عجیب ہے تمہیں اپنوں کا بھی خیال نہیں
مزا وصال کا ہوتا ہے اور ہجر کے بعد
بِنا فراق تو لطفِ شبِ وصال نہیں
غرور کیسا نصیبوں پہ گر ہوئے اچھے
تمہاری ذات کا اس میں کوئی کمال نہیں

0
97
یہ دل حسرتوں کو جو گنتا نہیں تھا
سو آتش میں غم کی یہ جلتا نہیں تھا
مَرا تو نہیں میں بچھڑنے پہ ان کے
مگر یہ بھی زندہ ہوں ، لگتا نہیں تھا
لڑی موتیوں کی پروئی تھی، اس پر
جَپَا جس کا نام اس کا بنتا نہیں تھا

0
64
کیا تم کو بلاتا نہیں لاچارِ فلسطیں
کیا ہے کوئی جو پھر سے ہو معمارِ فلسطیں
دشمن کو مٹا دینے کے دعوے تو بہت ہیں
ٹی۔ وی۔ پہ ہی بس کرتے ہیں دیدارِ فلسطیں
فرعون جو ہیں مسجدِ اقصیٰ پہ مسلّط
موسیٰ ہی بچائے گا وہ دیوارِ فلسطیں

35
میں نے اس رنگ میں بھی رب کی عبادت کی ہے
اس کی مخلوق کو چاہا ہے، محبت کی ہے
کیوں نہ روؤں کہ اُس اک شخص نے نفرت کی ہے
خام سے کام میں دن رات کی محنت کی ہے
درد پائے ہیں محبت کے صلے میں مَیں نے
مجھ سے دنیا کے اصولوں نے عداوت کی ہے

28
نہ جیتے بھی تو، گر ہے عاشق، تو وہ بھی سکندر ہے
محبت میں حاصل وہ شبنم بھی کر لے، سمندر ہے
پتہ تب لگے گا، لگے گا جو غوطہ محبت میں
کہ دل میں محبت نہیں، دل محبت کے اندر ہے
محبت کی تالوں پہ دھڑکے جو دل، وہ دل عاشق کا
محبت کی دھُن میں جو جھومے، وہی تو قلندر ہے

34
رنگ اُس ذات کا ہو ، لازم ہے
ڈھنگ ہر بات کا ہو ، لازم ہے
وصل ہو یا نہ ہو نصیب ہمیں
پردہ جذبات کا ہو، لازم ہے
جیت پر جشن چاہے روز کرو
رنج ہر مات کا ہو لازم ہے

33
اسے میری محبت جو اداکاری سی لگتی ہے
مجھے تو اس کے دل پر چار دیواری سی لگتی ہے
عطا جب حسن ہو پھر تو یہ بے مہری نہیں ہوتی
مجھے اس کی یہ اپنے دل سے غدّاری سی لگتی ہے
جدائی یوں بھی انساں پر اثر انداز ہوتی ہے
کہ ہنستی مسکراتی شکل بے چاری سی لگتی ہے

35
آؤ مل کر چلیں
آؤ مل کر چلیں
ایک دوجے کا اب ہم سہارا بنیں
وقت کی قید میں
میں بھی ہوں تم بھی ہو
آؤ مل کر یہ پل ہم گزاریں

190
مون اسیر جس میں ، دنیا وہ آشیانا
کافر کے واسطے گو جنت ہے یہ ٹھکانا
دنیا کی عیش وعشرت میں رات دن لگانا
دنیا کو جیتنے میں سانسوں کا ہار جانا
ہرگز نہیں ہے کافی کلمہ زباں سے پڑھنا
تقویٰ پہ ہو کے قائم ، صالح عمل دکھانا

37
کس قدر باکمال ہو جائیں
ہم اگر خوش خصال ہو جائیں
روزِ محشر نہال ہو جائیں
گر محمدؐ کی آل ہو جائیں
بس یہی اک کمال کافی ہے
اس کے سب ہم خیال ہو جائیں

57
زمیں کے نیچے جو اک مختصر مکاں ہوگا
مجھے یہ لگتا ہے وہ ہی مرا جہاں ہوگا
ذرا سی دوستی اس سے کبھی اگر کر لو
جہاں پکارو گے اس کو، خدا وہاں ہوگا
ہمیں جو لذّتِ گِریہ سے آشنائی ہے
ہمارے دل میں تو رقّت کا ہی سماں ہوگا

49
عشق جیسا گناہ کر ڈالا
خود کو میں نے تباہ کر ڈالا
دیکھو رنگینئ مزاج نے اب
کیسا چہرہ سیاہ کر ڈالا
اُس کے آنے پہ دل نے سینے میں
شور و غل بے پناہ کر ڈالا

0
58
تیرہ شب میں قمر نہیں ہوتا
اور وقتِ سحر نہیں ہوتا
خدمتیں فرض گرچہ ہوتی ہیں
باغباں کا شجر نہیں ہوتا
میری سانسیں بحال کب ہوتیں
وہ مسیحا اگر نہیں ہوتا

42
یہ ہی خوش فہمی تمہاری، تمہیں لے ڈوبے گی
جو سمجھتے ہو شبِ غم ہمیں لے ڈوبے گی
دشمنوں کی کیا ضرورت، یہ جو قسمت ہے نا
ہم کے جتنی بھی اڑانیں بھریں، لے ڈوبے گی
وہ جفاؤں کے سہارے ہمیں ٹھکراتے ہیں
ایک دن ان کی یہ غلطی انہیں لے ڈوبے گی

101
گو تِرے وصل کا لگتا نہیں امکاں جاناں
ہم تو کر بیٹھے تجھے ملنے کا پیماں جاناں
اس سے پہلے تو نہیں دیکھا کہیں تجھ سا حسیں
تیری مسکان پہ ہو جاؤں میں قرباں جاناں
اب بہار آئے گی، رخصت یہ خزاں ہوتی ہے
کیوں سمجھتا نہیں اس کو دلِ ناداں جاناں

26
الزام تُو لگائے، مانگے صفائی مجھ سے
ہے کس وجہ سے آخر، تیری لڑائی مجھ سے
یہ بغض اور محبت ہے فطرتاً دلوں میں
تجھ سے کہا یہ کس نے تُو کر برائی مجھ سے!

0
35
آپ سے اس قدر محبت ہے
آپ سے سیکھے ہوئے لفظوں کی
میں تو تسبیح کرتا مر جاؤں
میں تو اللّہ کے بھی گھر جاؤں
تو وہ گھڑیاں میں مانگوں گا واپس
روشنی بانٹتے تھے جن میں آپ

0
36
یوں لگا، جب وہ بن کے یار آیا
دشت میں موسمِ بہار آیا
جنگ نظروں کی چھڑ گئی اس سے
اور میں اپنے دل کو ہار آیا
اپنی مستی میں مست تھا وہ تو
پھر نہ جانے کیوں اس پہ پیار آیا

70
دیکھا ہے جس طرف بھی اس اجڑے دیار میں
پایا ہے ہر کسی کو اے رب حالِ زار میں
آئے تو ایک بار صبا یاں بہار میں
کوئی کثر نہ چھوڑیں گے دار و مدار میں
ہوش و حواس کھو گئے ہیں دیکھ کر تمہیں
بے سمت پھر رہا ہوں تمہارے خمار میں

57
دل کی دھڑکن سے واقف ہے میرا خدا
جانتا ہے سبھی کچھ جو تُو نے کیا
دھڑکنیں کانپتی بھی تو سنتا ہے وہ
میرے زخموں کی آہوں کو سنتا ہے وہ
وہ جو چاہے تو کر دے فنا یہ زمیں
کوئی شے اس کی قدرت سے باہر نہیں

39
چاہے مایوسی کی راہیں مجھے دکھلاتی ہیں
الجھنیں مجھ میں الجھ کر بھی تو پچھتاتی ہیں
جب کبھی خواہشیں بے ڈھنگ بناتی ہیں مجھے
مشکلیں آ کے مِری زندگی سلجھاتی ہیں
کس تکلّف سے سجاتا ہوں ہنسی چہرے پر
اس کی یادیں ہیں کہ پھر مجھ کو رلا جاتی ہیں

33
جو اس سے اپنا تعلق اگر بچا نہ سکے
تو سمجھیں گے کہ ہم عمرِ خضر بچا نہ سکے
اِدھر تھا نعرہِ ھو اور اُدھر تھا تختہِ دار
جنہوں نے دل کو بچایا وہ سر بچا نہ سکے
ہم عشق میں سرِ بازار لُٹنے سے دل کو
بچانا چاہتے تو تھے، مگر بچا نہ سکے

42
یہ کیسا گھر ہے کہ جس میں کوئی کتاب نہیں
سیاہ رات ہے جس میں کہ ماہتاب نہیں
قریب سے جو وہ گزرا بغیر دیکھے مجھے
کہ اس سے بڑھ کے مِرے واسطے عذاب نہیں
وہ خاک میں نہ ملا دے کہیں خفا ہو کر
مِری وہ الفتیں، جن کا کوئی حساب نہیں

36
جب بھی کسی سے دھوکا ملا، مسکرا دیے
ہم نے جہاں سے درد لیے اور بھلا دیے
قسمت کا تارہ ٹوٹ گیا جب، تو میں نے خود
جتنے چراغ گھر میں تھے، وہ سب بجھا دیے
جب اس کو میرے فرقے کے بارے پتہ لگا
اس نے وہ ساتھ دینے کے وعدے بھلا دیے

164
زندگی جینے کا یہ طور نیا رکھا ہے
درد کا نام بھی اب ہم نے دوا رکھا ہے
حسرتیں رہنے کا امکاں ہی نہیں ہے دل میں
آرزوؤں کا نشاں ہم نے مٹا رکھا ہے
سوز و غم ہیں یا کہ ارماں ہیں کوئی، کیا معلوم
دل کے حالات کو سینے نے چھپا رکھا ہے

45