یہ کیسا گھر ہے کہ جس میں کوئی کتاب نہیں
سیاہ رات ہے جس میں کہ ماہتاب نہیں
قریب سے جو وہ گزرا بغیر دیکھے مجھے
کہ اس سے بڑھ کے مِرے واسطے عذاب نہیں
وہ خاک میں نہ ملا دے کہیں خفا ہو کر
مِری وہ الفتیں، جن کا کوئی حساب نہیں
برا میں کیسے مناؤں گا اس کی نفرت کا
حساب میں وہ ابھی صاحبِ نصاب نہیں
ہاں ایک طرفہ محبت نہیں گناہ مگر
زیاں یہ وقت کا ہے، اس میں کچھ ثواب نہیں
خدایا رحم کا طالب ہوں بندۂ عاجز
کہ جس کی آنکھوں میں شہرت کا کوئی خواب نہیں
کوئی بھی راستہ چُن لو، ملیں گے کانٹے ہی
نصیب میں جو ہمارے کوئی گلاب نہیں
نہیں ہے آس بھی بجھنے کی پیاس اب ثاقبؔ
ہوں ایسے دشت میں جس میں کوئی سراب نہیں

36