یہ کیسا گھر ہے کہ جس میں کوئی کتاب نہیں |
سیاہ رات ہے جس میں کہ ماہتاب نہیں |
قریب سے جو وہ گزرا بغیر دیکھے مجھے |
کہ اس سے بڑھ کے مِرے واسطے عذاب نہیں |
وہ خاک میں نہ ملا دے کہیں خفا ہو کر |
مِری وہ الفتیں، جن کا کوئی حساب نہیں |
برا میں کیسے مناؤں گا اس کی نفرت کا |
حساب میں وہ ابھی صاحبِ نصاب نہیں |
ہاں ایک طرفہ محبت نہیں گناہ مگر |
زیاں یہ وقت کا ہے، اس میں کچھ ثواب نہیں |
خدایا رحم کا طالب ہوں بندۂ عاجز |
کہ جس کی آنکھوں میں شہرت کا کوئی خواب نہیں |
کوئی بھی راستہ چُن لو، ملیں گے کانٹے ہی |
نصیب میں جو ہمارے کوئی گلاب نہیں |
نہیں ہے آس بھی بجھنے کی پیاس اب ثاقبؔ |
ہوں ایسے دشت میں جس میں کوئی سراب نہیں |
معلومات