آؤ مل کر چلیں
آؤ مل کر چلیں
ایک دوجے کا اب ہم سہارا بنیں
وقت کی قید میں
میں بھی ہوں تم بھی ہو
آؤ مل کر یہ پل ہم گزاریں
پھیکی دنیا میں میٹھی سی باتوں کے رنگ
آؤ مل کر بھریں
آؤ مل کر چلیں
تم بنو آفتاب اور میں ماہتاب
ہو منوّر ہمیں سے یہ خاک اور آب
آسماں کو زمیں میں دِکھے آئینہ
اس اندھیرے کو دن اور مل پائیں نہ
روشنی کا سبب آؤ مل کر بنیں
آؤ مل کر چلیں
آؤ تنہائیوں سے بھری رات میں
وصل کا مل کے ہم
بول بالا کریں
ایک دوجے کی خاطر اجالا کریں
ایک دوجے کے دل کی وہ سرحد بنیں
جس کے نزدیک بھی
غم ٹھہر نہ سکیں
وہ پرانی خزاؤں کے کانٹے سبھی
جو مِرے اور تِرے دل کی تہہ میں چبھے
ان کو مل کر چنیں
کیوں نہ ملتے رہیں
تا نہ آئے خزاں پھر کبھی
بس رہے یہ بہار
ایک دوجے کی خاطر مکمل جہاں ہم بنیں
آؤ مل کر رہیں!

191