یہ دل حسرتوں کو جو گنتا نہیں تھا
سو آتش میں غم کی یہ جلتا نہیں تھا
مَرا تو نہیں میں بچھڑنے پہ ان کے
مگر یہ بھی زندہ ہوں ، لگتا نہیں تھا
لڑی موتیوں کی پروئی تھی، اس پر
جَپَا جس کا نام اس کا بنتا نہیں تھا
حماقت ہوئی تھی یا غفلت تھی میری
بلاتا رہا وہ، میں سنتا نہیں تھا
بنے نفرتوں کے پجاری سبھی وہ
دلوں میں خدا جن کے بستا نہیں تھا
مِرے زخم کانٹوں نے بھرنے دئیے کب
میں پھولوں سے خوشبو بھی چنتا نہیں تھا
کہوں گا بڑے فخر سے روزِ محشر
کہ شیطاں کے قدموں پہ چلتا نہیں تھا
میں سائے میں ثاقبؔ رہا اس شجر کی
کبھی پھل جو دینے سے رُکتا نہیں تھا

0
64