یہ دل حسرتوں کو جو گنتا نہیں تھا |
سو آتش میں غم کی یہ جلتا نہیں تھا |
مَرا تو نہیں میں بچھڑنے پہ ان کے |
مگر یہ بھی زندہ ہوں ، لگتا نہیں تھا |
لڑی موتیوں کی پروئی تھی، اس پر |
جَپَا جس کا نام اس کا بنتا نہیں تھا |
حماقت ہوئی تھی یا غفلت تھی میری |
بلاتا رہا وہ، میں سنتا نہیں تھا |
بنے نفرتوں کے پجاری سبھی وہ |
دلوں میں خدا جن کے بستا نہیں تھا |
مِرے زخم کانٹوں نے بھرنے دئیے کب |
میں پھولوں سے خوشبو بھی چنتا نہیں تھا |
کہوں گا بڑے فخر سے روزِ محشر |
کہ شیطاں کے قدموں پہ چلتا نہیں تھا |
میں سائے میں ثاقبؔ رہا اس شجر کی |
کبھی پھل جو دینے سے رُکتا نہیں تھا |
معلومات