دیکھا ہے جس طرف بھی اس اجڑے دیار میں |
پایا ہے ہر کسی کو اے رب حالِ زار میں |
آئے تو ایک بار صبا یاں بہار میں |
کوئی کثر نہ چھوڑیں گے دار و مدار میں |
ہوش و حواس کھو گئے ہیں دیکھ کر تمہیں |
بے سمت پھر رہا ہوں تمہارے خمار میں |
مے خانے کی شرابوں میں کوئی نشہ نہیں! |
ہے کچھ نشہ اگر، تو ہے بس حسنِ یار میں |
اب سوچ کر وہ کھیلیں گے آئندہ مجھ سے کھیل |
بدلا ہے ان کی جیت کو میں نے جو ہار میں |
آمد پہ تیری دیکھ تو اے پیکرِ بہار |
کھلنے لگے ہیں پھر سے شگوفے بہار میں |
ثاقبؔ نہیں ہے مول وفا کا جہان میں |
سو ہم نے مفت دے دی یہ عشق اور پیار میں |
معلومات