جو اس سے اپنا تعلق اگر بچا نہ سکے
تو سمجھیں گے کہ ہم عمرِ خضر بچا نہ سکے
اِدھر تھا نعرہِ ھو اور اُدھر تھا تختہِ دار
جنہوں نے دل کو بچایا وہ سر بچا نہ سکے
ہم عشق میں سرِ بازار لُٹنے سے دل کو
بچانا چاہتے تو تھے، مگر بچا نہ سکے
بچاتے کیسے محبت میں ڈوبتے دل کو!
جب اس پہ پڑنے سے اپنی نظر بچا نہ سکے
جلائے لاکھ دیے پھر بھی ان اندھیروں سے
ہم اپنی بستی تو کیا، اپنا گھر بچا نہ سکے
اگرچہ فوج محافظ تھی سرحدوں کی مگر
ہم اپنے ملک میں اپنا ہنر بچا نہ سکے
کلام کرنے وہ آئے تھے ہم سے جب ثاقبؔ
ہم اپنے لفظوں کے زیر و زبر بچا نہ سکے!

42