جو اس سے اپنا تعلق اگر بچا نہ سکے |
تو سمجھیں گے کہ ہم عمرِ خضر بچا نہ سکے |
اِدھر تھا نعرہِ ھو اور اُدھر تھا تختہِ دار |
جنہوں نے دل کو بچایا وہ سر بچا نہ سکے |
ہم عشق میں سرِ بازار لُٹنے سے دل کو |
بچانا چاہتے تو تھے، مگر بچا نہ سکے |
بچاتے کیسے محبت میں ڈوبتے دل کو! |
جب اس پہ پڑنے سے اپنی نظر بچا نہ سکے |
جلائے لاکھ دیے پھر بھی ان اندھیروں سے |
ہم اپنی بستی تو کیا، اپنا گھر بچا نہ سکے |
اگرچہ فوج محافظ تھی سرحدوں کی مگر |
ہم اپنے ملک میں اپنا ہنر بچا نہ سکے |
کلام کرنے وہ آئے تھے ہم سے جب ثاقبؔ |
ہم اپنے لفظوں کے زیر و زبر بچا نہ سکے! |
معلومات