میں نے اس رنگ میں بھی رب کی عبادت کی ہے |
اس کی مخلوق کو چاہا ہے، محبت کی ہے |
کیوں نہ روؤں کہ اُس اک شخص نے نفرت کی ہے |
خام سے کام میں دن رات کی محنت کی ہے |
درد پائے ہیں محبت کے صلے میں مَیں نے |
مجھ سے دنیا کے اصولوں نے عداوت کی ہے |
شعر گوئی کوئی جذبات کا تو کھیل نہیں |
بات ساری ہی یہاں فہم و فراست کی ہے |
جو نہ حاصل ہوا کچھ بھی تو سمجھ آیا مجھے |
بات نیّت کی نہیں، بات تو ہمّت کی ہے |
جس نے اِس ملک میں سچ بولنے کی جرات کی |
اس نے دستورِ ریاست سے بغاوت کی ہے |
اس نے رکھے ہیں روابط جو رقیبوں سے تو کیا |
اس کو الفت بھی تو اک شاخ سیاست کی ہے |
ان کو دل دے کے یہ احساس ہوا ہے ثاقبؔ |
میں نے واپس انہیں ان ہی کی امانت کی ہے! |
معلومات