نہیں یہ شکوہ کہ پوچھا ہمارا حال نہیں |
عجیب ہے تمہیں اپنوں کا بھی خیال نہیں |
مزا وصال کا ہوتا ہے اور ہجر کے بعد |
بِنا فراق تو لطفِ شبِ وصال نہیں |
غرور کیسا نصیبوں پہ گر ہوئے اچھے |
تمہاری ذات کا اس میں کوئی کمال نہیں |
عروج ہم نے بھی دیکھا بہت بلندی سے |
گماں ہوا تھا ہمیں بھی کہ اب زوال نہیں |
کیا تھا میں نے دلیلوں سے اس کو یوں قائل |
سمجھ گیا وہ بچا اب کوئی سوال نہیں |
چھپا کے رنجشیں اس نے رکھیں، پتا نہ چلے |
عیاں ہوئی ہیں جو مجھ پر اسے ملال نہیں |
سخن وری کے سُروں میں ہے جھومتا ثاقبؔ |
یہ سب اسی کی عطا ہے، مِرا کمال نہیں |
معلومات