زمیں کے نیچے جو اک مختصر مکاں ہوگا |
مجھے یہ لگتا ہے وہ ہی مرا جہاں ہوگا |
ذرا سی دوستی اس سے کبھی اگر کر لو |
جہاں پکارو گے اس کو، خدا وہاں ہوگا |
ہمیں جو لذّتِ گِریہ سے آشنائی ہے |
ہمارے دل میں تو رقّت کا ہی سماں ہوگا |
وہ ظلم ڈھاتا رہا ہے کہ ایک شاعر سے |
دو چار غزلوں میں کیسے ستم بیاں ہوگا! |
لگی تھی چوٹ جو ثاقبؔ کسی کے جانے سے |
کہیں پہ دل میں ترے اب تلک نشاں ہوگا |
معلومات