زمیں کے نیچے جو اک مختصر مکاں ہوگا
مجھے یہ لگتا ہے وہ ہی مرا جہاں ہوگا
ذرا سی دوستی اس سے کبھی اگر کر لو
جہاں پکارو گے اس کو، خدا وہاں ہوگا
ہمیں جو لذّتِ گِریہ سے آشنائی ہے
ہمارے دل میں تو رقّت کا ہی سماں ہوگا
وہ ظلم ڈھاتا رہا ہے کہ ایک شاعر سے
دو چار غزلوں میں کیسے ستم بیاں ہوگا!
لگی تھی چوٹ جو ثاقبؔ کسی کے جانے سے
کہیں پہ دل میں ترے اب تلک نشاں ہوگا

49