زندگی جینے کا یہ طور نیا رکھا ہے
درد کا نام بھی اب ہم نے دوا رکھا ہے
حسرتیں رہنے کا امکاں ہی نہیں ہے دل میں
آرزوؤں کا نشاں ہم نے مٹا رکھا ہے
سوز و غم ہیں یا کہ ارماں ہیں کوئی، کیا معلوم
دل کے حالات کو سینے نے چھپا رکھا ہے
ڈوبنے والے نے تنکے کا سہارا نہ لیا
پر تِرے نام کو سینے سے لگا رکھا ہے
گر جو فطرت میں وفا رکھی ہے، تو لازم ہے
اس جہاں میں ہی کہیں مولِ وفا رکھا ہے
میں نے جس دل کو تِرے قدموں تلے رکھا تھا
تُو نے اس دل کو دُکھانا ہی روا رکھا ہے
ہم نے یہ سوچ کے دنیا کو نبھایا ثاقبؔ
حشر میں اس کا جو انعام بڑا رکھا ہے

45