زندگی جینے کا یہ طور نیا رکھا ہے |
درد کا نام بھی اب ہم نے دوا رکھا ہے |
حسرتیں رہنے کا امکاں ہی نہیں ہے دل میں |
آرزوؤں کا نشاں ہم نے مٹا رکھا ہے |
سوز و غم ہیں یا کہ ارماں ہیں کوئی، کیا معلوم |
دل کے حالات کو سینے نے چھپا رکھا ہے |
ڈوبنے والے نے تنکے کا سہارا نہ لیا |
پر تِرے نام کو سینے سے لگا رکھا ہے |
گر جو فطرت میں وفا رکھی ہے، تو لازم ہے |
اس جہاں میں ہی کہیں مولِ وفا رکھا ہے |
میں نے جس دل کو تِرے قدموں تلے رکھا تھا |
تُو نے اس دل کو دُکھانا ہی روا رکھا ہے |
ہم نے یہ سوچ کے دنیا کو نبھایا ثاقبؔ |
حشر میں اس کا جو انعام بڑا رکھا ہے |
معلومات