میں ناز دل کے اب اور کب تک اٹھا سکوں گا |
کہ چاند تارے تو اِس کی خاطر نہ لا سکوں گا |
دو چار چھ شعر بے رخی پہ ہی لکھ دوں گا بس! |
وہ جانتا ہے کہ ظلم اتنا ہی ڈھا سکوں گا |
تُمہیں بتا دو کہ تم کو پانے کی جستجو میں |
میں کونسی حد کو پار کر لوں تو پا سکوں گا |
ہاں تیری محفل میں آ تو جاؤں مگر اے ساقی |
میں جام پینے کے بعد گھر کو نہ جا سکوں گا |
یہ شعر جس کے لیے کہے تھے وہ جا چکا ہے |
وہ آئے گا تو مشاعرہ اک سجا سکوں گا |
کبھی تو جینے کے واسطے سچ کو چھوڑنا ہے |
میں آئینہ اس جہاں کو کب تک دکھا سکوں گا |
مجھے جو ثاقبؔ کے نام سے سب پکارتے ہیں |
ضرور اک دن میں سب اندھیرے مٹا سکوں گا |
معلومات