جب بھی کسی سے دھوکا ملا، مسکرا دیے |
ہم نے جہاں سے درد لیے اور بھلا دیے |
قسمت کا تارہ ٹوٹ گیا جب، تو میں نے خود |
جتنے چراغ گھر میں تھے، وہ سب بجھا دیے |
جب اس کو میرے فرقے کے بارے پتہ لگا |
اس نے وہ ساتھ دینے کے وعدے بھلا دیے |
سازش، مداخلت بھی نہ کی، پھر نہ جانے کیوں |
اس نے مِرے خطوط مجھے ہی تھما دیے |
ثاقبؔ نے اس لیے کہ وہ مومن شمار ہو |
دھوکا ملا تو قلب پہ تالے لگا دیے |
معلومات