جب بھی کسی سے دھوکا ملا، مسکرا دیے
ہم نے جہاں سے درد لیے اور بھلا دیے
قسمت کا تارہ ٹوٹ گیا جب، تو میں نے خود
جتنے چراغ گھر میں تھے، وہ سب بجھا دیے
جب اس کو میرے فرقے کے بارے پتہ لگا
اس نے وہ ساتھ دینے کے وعدے بھلا دیے
سازش، مداخلت بھی نہ کی، پھر نہ جانے کیوں
اس نے مِرے خطوط مجھے ہی تھما دیے
ثاقبؔ نے اس لیے کہ وہ مومن شمار ہو
دھوکا ملا تو قلب پہ تالے لگا دیے

164