جب سے تِرے دیار میں اے دل کوئی نہیں
میں اک سفر میں ہوں، مِری منزل کوئی نہیں
کیسی عجیب بات ہے مقتل میں بیٹھ کر
مقتول کہہ رہا ہے کہ قاتل کوئی نہیں
رک سی گئیں ہیں محفلیں جو علم کی یہاں
لگنے لگا ہے شہر میں جاہل کوئی نہیں
میں تشنگی مٹانے کی خاطر چلا تھا اور
اب دور دور تک مِرے ساحل کوئی نہیں
کیوں کر ہوں پھر ترقیاں، کیسے چلے یہ ملک
قاضی تو ہیں مگر یہاں عادل کوئی نہیں
ثاقب وفا کی راہ کا رتبہ بلند ہے
ورنہ جفا کی راہ میں مشکل کوئی نہیں

0
37