نہ جیتے بھی تو، گر ہے عاشق، تو وہ بھی سکندر ہے |
محبت میں حاصل وہ شبنم بھی کر لے، سمندر ہے |
پتہ تب لگے گا، لگے گا جو غوطہ محبت میں |
کہ دل میں محبت نہیں، دل محبت کے اندر ہے |
محبت کی تالوں پہ دھڑکے جو دل، وہ دل عاشق کا |
محبت کی دھُن میں جو جھومے، وہی تو قلندر ہے |
برائی کے کاموں کی نقلوں سے پہچانا جاتا ہے |
یہ خصلت دکھاتی ہے انساں کے اندر بھی بندر ہے |
اسے جا کے ثاقبِؔ خستہ کی حالت بتا دینا |
بتانا کہ تیرے ہی دیے ہوئے غم کے اندر ہے |
معلومات