تیرہ شب میں قمر نہیں ہوتا |
اور وقتِ سحر نہیں ہوتا |
خدمتیں فرض گرچہ ہوتی ہیں |
باغباں کا شجر نہیں ہوتا |
میری سانسیں بحال کب ہوتیں |
وہ مسیحا اگر نہیں ہوتا |
مجھ کو تیری کمی ستاتی ہے |
اب کے تنہا سفر نہیں ہوتا |
خواہشیں مارنی ہی پڑتی ہیں |
یوں تو جیون بسر نہیں ہوتا |
صبر سے کام گر نہ ہو کوئی |
اتنا شیریں ثمر نہیں ہوتا |
میں تو غزلوں پہ غزلیں کہتا ہوں |
اُس پہ کوئی اثر نہیں ہوتا |
بھول بیٹھے ہیں لوگ یہ ثاقبؔ |
کہ خدا بے خبر نہیں ہوتا |
معلومات