تیرہ شب میں قمر نہیں ہوتا
اور وقتِ سحر نہیں ہوتا
خدمتیں فرض گرچہ ہوتی ہیں
باغباں کا شجر نہیں ہوتا
میری سانسیں بحال کب ہوتیں
وہ مسیحا اگر نہیں ہوتا
مجھ کو تیری کمی ستاتی ہے
اب کے تنہا سفر نہیں ہوتا
خواہشیں مارنی ہی پڑتی ہیں
یوں تو جیون بسر نہیں ہوتا
صبر سے کام گر نہ ہو کوئی
اتنا شیریں ثمر نہیں ہوتا
میں تو غزلوں پہ غزلیں کہتا ہوں
اُس پہ کوئی اثر نہیں ہوتا
بھول بیٹھے ہیں لوگ یہ ثاقبؔ
کہ خدا بے خبر نہیں ہوتا

42