چاہے مایوسی کی راہیں مجھے دکھلاتی ہیں
الجھنیں مجھ میں الجھ کر بھی تو پچھتاتی ہیں
جب کبھی خواہشیں بے ڈھنگ بناتی ہیں مجھے
مشکلیں آ کے مِری زندگی سلجھاتی ہیں
کس تکلّف سے سجاتا ہوں ہنسی چہرے پر
اس کی یادیں ہیں کہ پھر مجھ کو رلا جاتی ہیں
تشنگی وصل کی بڑھ جاتی ہے ہر وصل کے بعد
اس کی باتیں اور ادائیں یوں مجھے بھاتی ہیں
تُو جو آ جائے تو کھِل اٹھتی ہیں کلیاں وہ یہاں
تیرے جانے پہ سرِ شام جو مرجھاتی ہیں
سرد موسم میں وہ جب بھی نظر آئے ثاقبؔ
دھڑکنیں دل کی تِرے سینے کو گرماتی ہیں

33