مِرے ہی اپنے خیالوں میں گم چکا ہے اب اطمِنان میرا
گماں قیامت کا کیوں نہ ہو پھر کہ سرخ ہے آسمان میرا
تُو آ گیا تھا تو بن گیا تھا یہ گھر بھی تب گلستان میرا
مہک گیا تھا ہر ایک جانب سے ان دنوں یہ مکان میرا
وہ جانتا ہے کہ مخلصی سے نہیں ہٹوں گا میں پیچھے پھر بھی
وہ لے رہا ہے ہر ایک پل میں ہزار بار امتحان میرا
میں بے جھجھک حق کی بات کرنے لگا ہوا ہوں بہادری سے
سو ڈر رہا ہے زمانے والوں سے اب کے ہر پاسبان میرا
مجھے یقیں ہے تُو لوٹ آئے گا جلد واپس، اسی لیے تو
کھلا ہے ہر دم اے جانِ جاناں تِرے لیے آستان میرا
ہر ایک گل میری شاعری کے چمن کا اب جو مہک رہا ہے
قلم سے ہوئی ہے یاری ثاقبؔ، بنا ہے یہ ترجمان میرا

0
66