گو تِرے وصل کا لگتا نہیں امکاں جاناں |
ہم تو کر بیٹھے تجھے ملنے کا پیماں جاناں |
اس سے پہلے تو نہیں دیکھا کہیں تجھ سا حسیں |
تیری مسکان پہ ہو جاؤں میں قرباں جاناں |
اب بہار آئے گی، رخصت یہ خزاں ہوتی ہے |
کیوں سمجھتا نہیں اس کو دلِ ناداں جاناں |
حالِ دل تجھ کو سنانے میں نہ ہو بے ادبی |
کیا کہوں سوچ کے ہوتا ہوں پریشاں جاناں! |
میری محفل میں کمی ہے تو فقط تیری ہے |
تیرے بن دل بھی دھڑکتا ہے تو جاناں جاناں! |
اس قدر گرتے ہوئے دیکھے ہیں انساں میں نے |
خود کو ڈر لگتا ہے کہتے ہوئے انساں جاناں |
تُو نہیں تھا تو یہ دکھ درد مِرے ساتھ رہے |
ان غموں کے بھی تو مجھ پہ رہے احساں جاناں |
گر محبت ہمیں بازار میں مل جاتی کہیں |
اس کے سودے میں تو دے دیتے دل و جاں جاناں |
جو بھی ثاقبؔ نے لکھی ہے، وہ غزل تیرے لیے |
اور ہوتا ہی نہیں کوئی بھی عنواں جاناں! |
معلومات