رنگ اُس ذات کا ہو ، لازم ہے
ڈھنگ ہر بات کا ہو ، لازم ہے
وصل ہو یا نہ ہو نصیب ہمیں
پردہ جذبات کا ہو، لازم ہے
جیت پر جشن چاہے روز کرو
رنج ہر مات کا ہو لازم ہے
دیکھنا چاند کو اگر چاہو
وقت بس رات کا ہو لازم ہے
خود کو کیسے فقیر کہہ دوں میں
کاسہ خیرات کا ہو، لازم ہے
حسرتیں دید کی رہیں دل میں
درد صدمات کا ہو، لازم ہے
اشک بہنے لگیں اگر ثاقبؔ
ذکر برسات کا ہو لازم ہے

33