Circle Image

Mubarak Chaudhry

@mubarakchaudhry

کہیں پہ مجھ کو کہیں پر تجھے نہ ہونا تھا
کسی سبب سے سہی، فاصلہ تو ہونا تھا
تمہارے پھول رہیں گے یا میرے زخم یہاں
بہار آنے پہ یہ فیصلہ تو ہونا تھا
ہمارے خون سے ہوتا کہ گل کے رنگوں سے
جنوں کے ہاتھوں پہ رنگ حنا تو ہونا تھا

0
4
24
اس بہار میں پھر آ جاؤ
زخم کوئی نیا لگا جاؤ
شناوری کا ہنر پرانا ہوا
ڈھنگ سے ڈوبنا سکھا جاؤ
وہ جو اک بات ہے مرے دل میں
مجھ کو وہ بات ہی سنا جاؤ

0
10
یہ شام کا فسوں تھا کہ ساۓ بچھڑ گئے
کچھ دیر پھر بھی پاؤں چلے پھر اکھڑ گئے
لفظوں کے اس ہجوم میں مانوس تیرا نام
بولنے نہ پاۓ تھے کو ہونٹ جڑ گئے
غزل حیات کا مری اک رنگ ہے عجیب
قوافی سنوارنے میں معانی بگڑ گئے

0
3
زیست میں ایسا خلا ہے، ہر صدا ہے خامشی
جام تو خاموش تھے، اب مے کدہ ہے خامشی
کل جو سب کو بانٹتا تھا تازہ سازونغمگی
آج وہ خالی گلو سے بانٹتا ہے خامشی
آیا ہے اس شہر غل میں ایک ایسا بھی فقیر
سارا کچھ اپنا لٹا کر مانگتا ہے خامشی

0
5
میراکل جوتجھ سےسوال تھا، وہی آج میرا جواب ہے
کبھی خواب میں بھی کسی نے جانا کہ اصل  میں سارا خواب ہے
اے میرے محور ، یہ دوریاں میری گردشوں کا نصیب ھیں
نہ ہی وعدہ جھوٹا وفا کا ہے، نہ ہی عشق میرا خراب ہے
میرے سارے رنگوں کا سلسلہ تیری ساری خوشبو سے جڑ گیا
یہی   نغمگی ہائے رنگ و بو ،نئی آفرینش کا راگ ہے

0
6
جلا کر میں دل کو دیا کر رہا ہوں
میں خود اپنی سانسیں دھواں کر رہا ہوں
میرا نام جب یاد آئے تجھے
جان لینا کہ اب تک وفا کر رہا ہوں
اٹھا ہاتھ قاتل کا، میری نگاہ
خراج اس ادا کا، ادا کر رہا ہوں

0
5
اس درد کو لفظوں میں بیاں کیسے کروں میں
جو ہو نہیں سکتا ہے عیاں کیسے کروں میں
اس سوچ میں بیٹھا ہوں میں اشک سمیٹے
جو روک نہ پائوں گا، رواں کیسے کروں میں
اک ضعف نے جکڑا ہے یا ہوں سحر سے خاموش
گر آہ نہ نکلے تو فغاں کیسے کروں میں

0
5
بس خیالات میں کھو جاتے ہیں، سو جاتے ہیں
لفظ بے معنی جو ہو جاتے ہیں، سو جاتے ہیں
جب کبھی رات کو شبنم کی کمی باغ میں ہو
غنچے ویران سے ہو جاتے ہیں، سو جاتے ہیں
سرد شاموں میں جو چلتی ہے یہاں ٹھنڈی ہوا
سرد جذبات بھی ہو جاتے ہیں، سو جاتے ہیں

0
5
سارے لمحات کو جو موڑ کے لا سکتا تھا
انہی لمحات میں پھر چھوڑ کے جا سکتا تھا
دور رہ کر بھی ستاتی ہے تمازت جس کی
پاس آتا تو بڑی آگ لگا سکتا تھا
پورا میخانہ نگاہوں میں لئے پھرتا تھا
وہ جو چاہے تو مجھے تھوڑی پلا سکتا تھا

0
5
میرا سایہ جو مجھ سے بڑھ گیا ہے
یہی وقت عصر کا معجزہ ہے
ہمیں تو عشق میں کرنا تھا کچھ اور
یہ ہم سے عشق میں کیا ہو گیا ہے
میرے کلفت سے پالے لشکروں میں
میرے دشمن کا ڈیرہ ہو گیا ہے

0
6
مجھ کو چھاؤں میں تم اپنی ذرا لیٹنے دو
جسم کی پونجی کے سکے مجھےسمیٹنے دو
رب نے جس طرح سے فرصت سے تراشا ہے اسے
اس طرح مجھ کو بھی فرصت میں ذرا دیکھنے دو
میں نے محفل کے اصولوں سے بغاوت کی ہے
بے سمجھ بچوں کو زخموں سے ذرا کھیلنے دو

0
5
میرے خیالوں کا رخ موڑنے نہیں آئے
جو چھوڑ کر بھی مجھے چھوڑنے نہیں آئے
میرے مزار پہ کچھ پھول تم نہیں لائے
شکستہ قبر بھی تم جوڑنے نہیں آئے
یہ سچ ہے ضبط کیا اور ہم نہیں روئے
یہ اور بات کہ تم روکنے نہیں آئے

0
4
خلاؤں میں سفر ممکن ہوا ہے
اس ابدی رات میں بھی دن ہوا ہے
کچھ اتنی وسعتیں تنہائی میں ہیں
کہ یوں لگتا ہے دل ساکن ہوا ہے
کسی بھی اور جو کچھ بھی نہیں ہے
میری وحشت کو اطمینان سا ہے

0
5
اول اول تو ہمیں عشق کے مارے ٹوٹے
بعد میں پر تیری پندار کے پارے ٹوٹے
یاد میں تیری سبھی ضبط ہمارے ٹوٹے
“موج ساحل سے جو گزری تو کنارے ٹوٹے”
جو کوئی باندھ کے رکھے تھے پسِ وقتِ وصال
ضابطے، بند قبا، ہوش، سہارے، ٹوٹے

0
4
جام چھلکا اور بزم کوکچھ جوش میں لا
اور سب رندوں کو حلقۂ بلا نوش میں لا
باقی سب چھوڑ کہ اے جان وفا آج کی رات
اپنے دردوں کو بھلانے میری آغوش میں لا
کچھ اثر بادۂ خوش رنگ کا کچھ ہونٹ تیرے
مجھ کو مد ہوش کئے جاتے ہیں کچھ ہوش میں لا

0
5
جاتے ہوئے نگاہ سے کیسا سوال کر دیا
ہجر کا ایک اور برس؟ جینا محال کر دیا
آنسو کہیں نہیں تھے پر، کچھ تو امڈ کے آنکھ میں
دنیا سے کہہ رہے تھے وہ جو تو نے حال کر دیا
آنکھوں میں رتجگے سے تھے، لب بھی تھے خشک پپڑیاں
دیکھو میرے طبیب نے کیسا کمال کر دیا

0
3
کیوں آسماں کو وقت سے پہلےخبر کروں
سحر کا قیام ہو تو قیام سحر کروں
وصل کی یہ راحتیں کچھ یوں بسر کروں
تاروں کے بیچ گاؤں خلا میں سفر کروں
ہو تخلیہ تمام تو ساقی تمہارے ساتھ
وہ محفلیں سجاؤں کہ عالم دگر کروں

0
6
ہر چند اس کا خواب مکمل نہیں ہوا
وہ اس کے باوجود بھی پاگل نہیں ہوا
اک بار پھر سے چاند میرا سامنے تو ہے
اک بار پھر سے عشق مکمل نہیں ہوا
شمع تو اپنی ہستی جلا کر چلی گئی
پروانوں سے ہی دور مکمل نہیں ہوا

0
8
جب تمہارے دھیان میں ہونگا
اک کھلے آسمان میں ہونگا
تم سے ملنے کا وعدہ کر بیٹھا
جانے میں کس گمان میں ہونگا
بوئے گِل روکتی ہے جانے سے
میں تیرے پاکستان میں ہونگا

0
10
نہ میرا نام باقی ہے نہ میرا کام باقی ہے
مگر اب بھی پرانے عشق کا الزام باقی ہے
میں خود سے کہہ نہیں پایا، میں تجھ سے کہہ نہیں پایا
مگر اب بھی میرا تجھ سے ذرا سا کام باقی ہے
میں تیرا ذکر کرتا تھا صبح کے تارے سےاکثر
تم اس سے پوچھ لینا گر کوئی ابہام باقی ہے

0
8
مجھے اختیار ہے
اس جسم و روح پر کامل
میں مانتی ہوں کہ میں نے
نسل در نسل اپنے ہی پاوں کے سلاسل کی
خود ہی پرورش کی ہے
اپنی ہی سوچ پر لگا پہرے

0
5
آج کی رات میں سفر میں تھا
سایہ بن کر نگر نگر میں تھا
ظلمت شب کے ان چراغوں کا
ہر نشاں تارہؔ سحر میں تھا
اک نگاہ ازل جبیں پہ تیری
اجل تک اس کے ہی اثر میں تھا

0
8
ہجر کے برسوں کا کچھ ایسا قرض اتارا تھا
وصل کی شب ان آنکھوں میں ہر رنگ ہمارا تھا
کس نے کہا کہ حسن تمہارا صرف تمہارا تھا
تم اس کی تعبیر تو ہو پر خواب ہمارا تھا
وقت رخصت آنکھ میں نہ ملنے کا اشارہ تھا
“پلکوں کی دہلیز پہ چمکا ایک ستارہ تھا”

0
4
ہمیشہ ہاتھ میں لے کر وہ میرا ہاتھ چلتی ہے
میری وحشت میری طرح صبح سے رات چلتی ہے
میں موجوں کے سہارے ناؤ اپنی چھوڑ دیتا ہوں
تو پھر پتوار میں “کُن” کی تلاوت ساتھ چلتی ہے
تیرے ماتھے پہ جو محراب ہے تو کیا ہوا زاہد
میرے دامن پہ سجدے کی علامت ساتھ چلتی ہے

0
9
سمجھتا ہے کہ وہ بچ جائے گا انجام سے پہلے
پر اس کا نام لکھا ہے ہمارے نام سے پہلے
ستم کرلو، جفا کر لو، جفائیں بارہا کر لو
مگر ہم سب بھلا دیں گے ابھی اک جام سے پہلے
تیرے ترک تعلق سے تو بس اک موڑ آیا ہے
کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے؟

0
6
یار کو غیر بناتے ہوئے مر جانا ہے
نیا کردار نبھاتے ہوئے مر جانا ہے
اس لئے سنتا ہوں قصہ میں تمہارا ہر دم
اپنی روداد سناتے ہوئے مرجانا ہے
روز ہی بزم میں پیتے بھی ہیں مرتے بھی ہیں
بس یونہی بزم سجاتے ہوئے مر جانا ہے

0
5