| آج کی رات میں سفر میں تھا |
| سایہ بن کر نگر نگر میں تھا |
| ظلمت شب کے ان چراغوں کا |
| ہر نشاں تارہؔ سحر میں تھا |
| اک نگاہ ازل جبیں پہ تیری |
| اجل تک اس کے ہی اثر میں تھا |
| کل میری زیست کا ہر اک پہلو |
| اپنے امکان کی قبر میں تھا |
| میں جو لفظوں سے کچھ نہ کہہ پایا |
| سایہ پلکوں کا تیرے در میں تھا |
| ساری دنیا گزار آیا تھا |
| میں جو لوٹا تو اپنے گھر میں تھا |
معلومات