| کہیں پہ مجھ کو کہیں پر تجھے نہ ہونا تھا |
| کسی سبب سے سہی، فاصلہ تو ہونا تھا |
| تمہارے پھول رہیں گے یا میرے زخم یہاں |
| بہار آنے پہ یہ فیصلہ تو ہونا تھا |
| ہمارے خون سے ہوتا کہ گل کے رنگوں سے |
| جنوں کے ہاتھوں پہ رنگ حنا تو ہونا تھا |
| کہیں سے پیدا تھا ہونا شکستگی کا جواز |
| کوئی گلہ جو نہیں تھا، گلہ تو ہونا تھا |
| تیری عنائتیں ہم پر جو اتنی پیہم تھیں |
| تیری جفاؤں کا کچھ سلسلہ تو ہونا تھا |
| میں یاد رکھوں گا گو مختصر سا تھا لمحہ |
| وہ بھول جانا کہ ہم کو جدا تو ہونا تھا |
| قضا و قدر کی باتیں ہیں اپنا زور نہیں |
| تمارا وصل بھی، روز جزا تو ہونا تھا |
| تنہائیوں کے تعاقب میں جس طرف بھی گیا |
| اسی طرف کو ميرا قافلہ تو ہونا تھا |
| خدا نے تجھ کو بنا تو دیا تھا میرے لئے |
| تو یہ ضروری تھا تم کو میرا ہی ہونا تھا؟ |
| کئی دنوں سے کوئی بات کر نہ پاتا تھا |
| تو آج ساقیؔ کو غزل سرا تو ہونا تھا |
معلومات