کہیں پہ مجھ کو کہیں پر تجھے نہ ہونا تھا
کسی سبب سے سہی، فاصلہ تو ہونا تھا
تمہارے پھول رہیں گے یا میرے زخم یہاں
بہار آنے پہ یہ فیصلہ تو ہونا تھا
ہمارے خون سے ہوتا کہ گل کے رنگوں سے
جنوں کے ہاتھوں پہ رنگ حنا تو ہونا تھا
کہیں سے پیدا تھا ہونا شکستگی کا جواز
کوئی گلہ جو نہیں تھا، گلہ تو ہونا تھا
تیری عنائتیں ہم پر جو اتنی پیہم تھیں
تیری جفاؤں کا کچھ سلسلہ تو ہونا تھا
میں یاد رکھوں گا گو مختصر سا تھا لمحہ
وہ بھول جانا کہ ہم کو جدا تو ہونا تھا
قضا و قدر کی باتیں ہیں اپنا زور نہیں
تمارا وصل بھی، روز جزا تو ہونا تھا
تنہائیوں کے تعاقب میں جس طرف بھی گیا
اسی طرف کو ميرا قافلہ تو ہونا تھا
خدا نے تجھ کو بنا تو دیا تھا میرے لئے
تو یہ ضروری تھا تم کو میرا ہی ہونا تھا؟
کئی دنوں سے کوئی بات کر نہ پاتا تھا
تو آج ساقیؔ کو غزل سرا تو ہونا تھا

0
4
24
ردیف قافیہ درست کیجیئے غزل کا -

براہ مہربانی رہنمائی فرمادیں۔

0
کہیں پہ مجھ کو کہیں پر تجھے نہ ہونا تھا
کسی سبب سے سہی، فاصلہ تو ہونا تھا

مطلع طے کرتا ہے کہ ردیف کیا ہوگی اور قافیہ کیا - ہونا تھا دونوں میں آخر میں ایک جیسا ہے تو یہ ہوئی ردیف
مگر پھر نہ اور تو قافیہ نہیں - تو یہ مطلع غلط ہو گیا -
آگے پڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ردیف" تو ہونا تھا " رکھنا چاہ رہے ہیں تو پھر آپ پوری غزل میں اس میں کوئی تبدیلی نہین کر سکتے - ہر دوسرا مصرع اس پر ختم ہوگا - اس کو آپ ہی ہونا تھا وغیرہ نہیں لر سکتے -
پھر اس سے پہلے قافیہ بھی درست ہونا چاہیے

بہت شکریہ، میں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

0