| کیوں آسماں کو وقت سے پہلےخبر کروں |
| سحر کا قیام ہو تو قیام سحر کروں |
| وصل کی یہ راحتیں کچھ یوں بسر کروں |
| تاروں کے بیچ گاؤں خلا میں سفر کروں |
| ہو تخلیہ تمام تو ساقی تمہارے ساتھ |
| وہ محفلیں سجاؤں کہ عالم دگر کروں |
| میں جانتا ہوں کچھ بھی تو میں جانتا نہیں |
| کچھ جان لوں تو جان کر پھر جاں سپر کرون |
| میرا طریق خام ہے تو روک دو مجھے |
| اس صورت ہو نہ پائے تو صورت دگر کروں |
| اتنی مسافتوں سے کہیں تھک نہ جائے تو |
| آ منزل نگاہ تجھے ہمسفر کروں |
| خشک سالیوں سے بھاگ کر اپنے وجود کی |
| صحرا میں گھر بنایا تو صحرا کو گھر کروں |
معلومات