| مجھے اختیار ہے |
| اس جسم و روح پر کامل |
| میں مانتی ہوں کہ میں نے |
| نسل در نسل اپنے ہی پاوں کے سلاسل کی |
| خود ہی پرورش کی ہے |
| اپنی ہی سوچ پر لگا پہرے |
| انسان ہونے پر خود کو ہی سرزنش کی ہے |
| مگر اے میرے محافظ، یہ کیا کیا تو نے؟ |
| کہ جس خزانے کا تجھ کو امیں بنایا تھا |
| تو اس کا مالک بھی بن بیٹھا اور نقب زن بھی |
| اور میرے روح و جسم کا |
| خود ساختہ آقا و قابض و مختار بھی |
| مگر اے آقا و قابض و مختار |
| میرا یہ سوال ہے تم سے |
| کہ میرے کردار کی خوشبو اور میری سوچ کے رنگ |
| کسی کی چشمِ نگران کے اشارے کی |
| میرے کسی مہربان کی اجازت کی |
| بھلا منتظر کیوں ہو؟ |
| میں سمجھ رہی ہوں کی تکلیف میں بہت ہو تم |
| تمہارے ضابطه کہنہ میں سقم بہت سے ہیں |
| ملی جلی سی اس تہذیب میں وہم بہت سے ہیں |
| مگر یہ حق ہے کہ میرا آقا و قابض و مختار |
| خدا تو ایک ہی ہے |
| تو پھر افسردہ سوچ کے تھکے ہوئے دماغوں سے |
| مصالحت کی یکطرفہ روش ضروری ہے؟ |
| کیا تمہارے اوہام کا ہر اک سقم |
| دیکھنا ضروری ہے؟ |
| میں روحِ انقلابِ سوچ بن کے نکلی ہوں |
| ہر ایک موڑ پر بے روح جسموں سے |
| کیا سرزنش ضروری ہے؟ |
| میں جانتی ہوں کہ تم جانتے ہو |
| اب میری پرواز کو تم نہ روک پاؤ گے |
| میری غلامی کی زنجیر میرے پاؤں میں |
| اب زنگ آلود ہوتی جا رہی ہے |
| خود ہی مفقود ہوتی جا رہی ہے |
| کہ اس کو یک لخت توڑنے کے لئے |
| مجھے اختیار ہے |
| اس جسم و روح پر کامل |
| مجھے اختیار ہے |
معلومات