خلاؤں میں سفر ممکن ہوا ہے
اس ابدی رات میں بھی دن ہوا ہے
کچھ اتنی وسعتیں تنہائی میں ہیں
کہ یوں لگتا ہے دل ساکن ہوا ہے
کسی بھی اور جو کچھ بھی نہیں ہے
میری وحشت کو اطمینان سا ہے
یہاں ان گنت پھیلی کہکشائیں
اور ان میں اک ستارہ چل رہا ہے
کہیں روئیدگی میں ہیں ستارے
کہیں بادل میں تارا پل رہا ہے
کئی عمروں سے جو کرنیں بکھیرا
وہ اک بوڑھا ستارہ مر رہا ہے
خلاؤں میں غضب کا شور برپا
صدا کا سلسلہ ٹوٹا ہوا ہے
وہ دیکھو میرے جیسے دو ستارہ
جو باہم گردشوں میں مبتلا ہے
ذرا طاقت کا اس کی تو گماں کر
جو باہم کہکشائیں جوڑتا ہے
کئی نوری برس سے چل رہا ہوں
ہنوز آنکھوں میں اک وہی دیا ہے
مثالیں نور کی بے انتہا ہیں
مگر وہ جو دریچے کا دیا ہے
دریچے کا دیئے میں آگ مفقود
ستارے کی طرح روشن ادا ہے
دکھا دیتا ہے رستہ اپنے تک کا
میرا محبوب جس کو چاہتا ہے

0
6