| ہجر کے برسوں کا کچھ ایسا قرض اتارا تھا |
| وصل کی شب ان آنکھوں میں ہر رنگ ہمارا تھا |
| کس نے کہا کہ حسن تمہارا صرف تمہارا تھا |
| تم اس کی تعبیر تو ہو پر خواب ہمارا تھا |
| وقت رخصت آنکھ میں نہ ملنے کا اشارہ تھا |
| “پلکوں کی دہلیز پہ چمکا ایک ستارہ تھا” |
| لہر میرے دل میں جب تک نئی نہیں اٹھی |
| ساحل کی گیلی ریت پہ لکھا نام تمہارا تھا |
| تم جو لوٹ کر آئے نہیں یہ بات تمہی جانو |
| ہم نے مروت نہ چھوڑی تھی، ہم نے پکارا تھا |
| ہم نے لام الف کی صورت کبھی نہیں لکھا |
| مکتبِ بے خودی نے سکھایا نام تمہارا تھا |
| تیرا کنگن، تیرا گجرا، تیرا کاجل تھا |
| تم محسوس جو کر پاتے تو میں بھی تمہارا تھا |
| یار ہیں بیٹھے، سخن کی محفل، لمحوں کا سنگم |
| لفظ تو میرے بولتے ہونگے، خیال تمہارا تھا |
| اک ساقیؔ کا لطف بچا ہے رندوں کی خاطر |
| ورنہ تو مے خانہ، صراحی، جام تمہارا تھا |
معلومات