میرا سایہ جو مجھ سے بڑھ گیا ہے
یہی وقت عصر کا معجزہ ہے
ہمیں تو عشق میں کرنا تھا کچھ اور
یہ ہم سے عشق میں کیا ہو گیا ہے
میرے کلفت سے پالے لشکروں میں
میرے دشمن کا ڈیرہ ہو گیا ہے
اٹھو تم صحن گلشن کو مہک دو
میرے پھولو سویرا ہو گیا ہے
نہ اس میں دوش تیرا نہ کوئی ہاتھ
یہ سب کچھ ہی ہمیں سے ہو گیا ہے
میں اتنے ڈور سنبھالے ہوئے ہوں
میرا اٹھنا بکھیرا ہو گیا ہے
ہماری گفتگو کے سلسلوں میں
مناجاتوں کا ڈیرہ ہو گیا ہے
محبت ہے بحالی ملکیت کی
جو تیرا تھا وہ تیرا ہو گیا ہے
چلو مسجد میں ساقی جام لے کر
وہاں کتنا اندھیرا ہو گیا ہے

0
9