زیست میں ایسا خلا ہے، ہر صدا ہے خامشی
جام تو خاموش تھے، اب مے کدہ ہے خامشی
کل جو سب کو بانٹتا تھا تازہ سازونغمگی
آج وہ خالی گلو سے بانٹتا ہے خامشی
آیا ہے اس شہر غل میں ایک ایسا بھی فقیر
سارا کچھ اپنا لٹا کر مانگتا ہے خامشی
جل رہا بغداد کے ہر گھر میں آوازوں کا خون
سب ہوا اور سب فضا اور سب دھواں ہے خامشی
طرابلس میں اور دمشق و مصر میں ہے پھر رہا
ظلم کا عفریت جس کی ہم نوا ہے خامشی

0
7