سارے لمحات کو جو موڑ کے لا سکتا تھا |
انہی لمحات میں پھر چھوڑ کے جا سکتا تھا |
دور رہ کر بھی ستاتی ہے تمازت جس کی |
پاس آتا تو بڑی آگ لگا سکتا تھا |
پورا میخانہ نگاہوں میں لئے پھرتا تھا |
وہ جو چاہے تو مجھے تھوڑی پلا سکتا تھا |
ہجر کے موسم پیہم میں جو وقفہ ملتا |
میں تجھے پیار کے انداز سکھا سکتا تھا |
گل و بلبل، مئے گلفام سبھی اپنی جگہ |
اس کے آجانے پہ ماحول بنا سکتا تھا |
دل پر سوز، بھرا جام، صراحی خالی |
ایک ہی وار میں سب توڑ کے جا سکتا تھا |
معلومات