مجھ کو چھاؤں میں تم اپنی ذرا لیٹنے دو |
جسم کی پونجی کے سکے مجھےسمیٹنے دو |
رب نے جس طرح سے فرصت سے تراشا ہے اسے |
اس طرح مجھ کو بھی فرصت میں ذرا دیکھنے دو |
میں نے محفل کے اصولوں سے بغاوت کی ہے |
بے سمجھ بچوں کو زخموں سے ذرا کھیلنے دو |
لگ کے ساحل سے جو چلتا ہے وہی توڑتا ہے |
ایسے دریاؤں کا رخ آج مجھے موڑنے دو |
کچھ فکر بقیہ مسافت کا ہی کر لینے دو |
چھوڑ جانے سے قبل ہی مجھے تم چھوڑنے دو |
کچھ بھرم اپنے اصولوں کا ہی کر لو ساقی |
جام مست ہم کو بھی ٹکرا کے ذرا توڑنے دو |
ہم میسر ہیں رفاقت کے لئے جب بھی کہو |
زخم بس اگلی مسافت کے ذرا بھولنے دو |
میں جو کفارے کو آیا ہوں تو سمجھ کر آیا |
قسم کھا کر اسے تم میری ذرا توڑنے دو |
معلومات