اول اول تو ہمیں عشق کے مارے ٹوٹے |
بعد میں پر تیری پندار کے پارے ٹوٹے |
یاد میں تیری سبھی ضبط ہمارے ٹوٹے |
“موج ساحل سے جو گزری تو کنارے ٹوٹے” |
جو کوئی باندھ کے رکھے تھے پسِ وقتِ وصال |
ضابطے، بند قبا، ہوش، سہارے، ٹوٹے |
خشبِ آہن سے بنا شجرۂ قُلہ میرا |
جو میرے شجر پہ چلتے تھے وہ آرے ٹوٹے |
ہم نے کعبے میں جو بت برسوں سجا رکھے تھے |
رات اک جام میں گر کے وہ سہارے ٹوٹے |
کیا مِلا تم کو ہمیں دیس نکالا دے کر |
آگئے تم بھی تو پردیس میں، ہارے ٹوٹے |
آسماں ہوگا، مگر ساقی گری ہم سی کہاں |
جام چھلکائے جو ہم نے تو ستارے ٹوٹے |
معلومات