جاتے ہوئے نگاہ سے کیسا سوال کر دیا
ہجر کا ایک اور برس؟ جینا محال کر دیا
آنسو کہیں نہیں تھے پر، کچھ تو امڈ کے آنکھ میں
دنیا سے کہہ رہے تھے وہ جو تو نے حال کر دیا
آنکھوں میں رتجگے سے تھے، لب بھی تھے خشک پپڑیاں
دیکھو میرے طبیب نے کیسا کمال کر دیا
پیش نظر جو خوف تھے، ماضی کے جو نقوش تھے
میں نے بھی جتنا ہو سکا، ان کا زوال کر دیا
گو رنجشیں تھی مختصر، عنائتیں طویل تھیں
دونوں میں وارفتگی سے خوب واقف حال کر دیا
تارے میرے نصیب کے جب بادلوں کی اوٹ سے
چھائے میرے وجود پر، کیسا کمال کر دیا

0
3