یہ شام کا فسوں تھا کہ ساۓ بچھڑ گئے
کچھ دیر پھر بھی پاؤں چلے پھر اکھڑ گئے
لفظوں کے اس ہجوم میں مانوس تیرا نام
بولنے نہ پاۓ تھے کو ہونٹ جڑ گئے
غزل حیات کا مری اک رنگ ہے عجیب
قوافی سنوارنے میں معانی بگڑ گئے
جو لفظ سینچ سینچ کر رکھے تھے برسہا
وہ زہر بن کے میرے ہی دل میں اتر گئے
مڑ کر وہ دیکھ پائیں نہ، ایسا نہ ہو کہیں
انجانے راستوں پہ جو کچھ لوگ مڑ گئے

0
4