نہ میرا نام باقی ہے نہ میرا کام باقی ہے
مگر اب بھی پرانے عشق کا الزام باقی ہے
میں خود سے کہہ نہیں پایا، میں تجھ سے کہہ نہیں پایا
مگر اب بھی میرا تجھ سے ذرا سا کام باقی ہے
میں تیرا ذکر کرتا تھا صبح کے تارے سےاکثر
تم اس سے پوچھ لینا گر کوئی ابہام باقی ہے
ذرا دیکھو تو وقتی فاصلہ طےکر لیا ہم نے
تمہاری صبح چڑہتی ہے، ہماری شام باقی ہے
تیری ساری وفا ئیں یاد تھیں اس کو بچھڑنے میں
مگر ہرجائی کے سینے میں اک دشنام باقی ہے
کوئی دن اور جل جائے گا تیری پھونک سے ہمدم
جو جلتا تھا الاؤ، شعلہ بے نام باقی ہے
میری ہنگامہ خیز ی کو سکوں بھی آگیا کب سے
مگر کوچے میں تیرے کیا عجب ھنگام باقی ہے
ابھی بھی رات کے پچھلے پہر جو ٹیس اٹھتی ہے
میرے خلیوں میں تیرے ہجر کا کہرام باقی ہے
میرے دشمن کے سب توڑے مرمت کر لئے میں نے
جو پیاروں نے مرمت کی اب اس پر کام باقی ہے
تم آئے ہی نہیں ملنے یا پینی چھوڑ دی تم نے
میرے جشن مسرت میں تمہارا جام باقی ہے
قریب آج اتنا آیا ہے محور سے یہ پروانہ
لبادہ کھو دیا اسنے بس اب احرام باقی ہے
کئی دن سے جو مے خانے میں تجھ کو پوچھتا تھا وہ
کسی صحرا میں اب پھرتا تیرا ناکام ساقی ہے

0
14