| میرے خیالوں کا رخ موڑنے نہیں آئے |
| جو چھوڑ کر بھی مجھے چھوڑنے نہیں آئے |
| میرے مزار پہ کچھ پھول تم نہیں لائے |
| شکستہ قبر بھی تم جوڑنے نہیں آئے |
| یہ سچ ہے ضبط کیا اور ہم نہیں روئے |
| یہ اور بات کہ تم روکنے نہیں آئے |
| میں اس قرار گزشتہ کی بات کرتا ہوں |
| کہ جس کو توڑ دیا، توڑنے نہیں آئے |
| میں اس فسانۂ بے روح کا ہوں کردار |
| کہ جس میں روح بھی تم جوڑنے نہیں آئے |
| میں ان سلاسل آہنگ میں مقید ہوں |
| کہ جس کے بول مجھے جوڑنے نہیں آئے |
| میں ایسے جال کا بے ہنر جولاہا ہوں |
| کہ جس میں تار مجھے موڑنے نہیں آئے |
| یہ میری نیند بھی آرام تو نہیں دیتی |
| یہ میرے خواب بھی جھنجھوڑنے نہیں آئے! |
| تمہارا ساتھ بھی کچھ ہو گیا ہے بوجھل سا |
| پرانے بت بھی ہمیں، توڑنے نہیں آئے |
| مدام عشق میں تاروں پہ ہی نگاہ رہی |
| پر اپنے حصے کے بھی توڑنے نہیں آئے |
معلومات