| جلا کر میں دل کو دیا کر رہا ہوں |
| میں خود اپنی سانسیں دھواں کر رہا ہوں |
| میرا نام جب یاد آئے تجھے |
| جان لینا کہ اب تک وفا کر رہا ہوں |
| اٹھا ہاتھ قاتل کا، میری نگاہ |
| خراج اس ادا کا، ادا کر رہا ہوں |
| کہ شائد کہیں سے ملے تیرا راز |
| میں ہر اک صنم کو خدا کر رہا ہوں |
| تیرے غم کی منزل، میری راہ باقی |
| سو تجھ کو بھی آخر جدا کر رہا ہوں |
| شروع سے جیا ہوں میں دیوانگی میں |
| شروع سے ہی میں انتہا کر رہا ہوں |
معلومات