Circle Image

Samar

@Samee

غزل
دشمن تو مرے گھر کو بچانے کے لیے ہیں
جو دوست ہیں وہ آگ لگانے کے لیے ہیں
تم اپنے نشیمن کو ذرا رکھنا بچا کر
یہ بجلیاں ان کو تو جلانے کے لئے ہیں
اس شوخ کی فطرت پہ بھروسہ نہیں کرنا

0
91
کیسا نادان ہے آتش کو لگانے والا
گھر جلا بیٹھا مرے گھر کو جلانے والا
اپنی پلکوں پہ سجاؤں تو سجاؤں کیسے
آ گیا کوئی مرے خواب اڑانے والا
زندگانی میں سوا اشک کے اب کچھ بھی نہیں
کب کا پردیس گیا مجھ کو ہنسانے والا

106
سارے عالم میں ہے رحمت آپ کی
چاہتے سب ہیں محبت آپ کی
دور اس کی ہر پریشانی ہوئی
ہو گئی جس پر عنایت آپ کی
آپ ملتے ہیں سبھی سے پیار سے
فلسفہ ہے کوئی سیرت آپ کی

188
ان اندھیروں سے یہاں لوگ جو ڈر جاتے ہیں
شام ہوتے ہی وہی لوٹ کے گھر جاتے ہیں
فصل جو لوگ اگاتے ہیں یہاں کھیتوں میں
یہ بھی سچ ہے کہ وہی بھوک سے مر جاتے ہیں
ہر جگہ آپ کا رتبہ ہے زمانے بھر میں
ہم جھکائے ہوۓ دربار میں سر جاتے ہیں

116
برکتوں کا مہینہ یہ رمضان ہے
نیکیوں کا مہینہ یہ رمضان ہے
دن گزرتے ہیں فاقوں میں ان کے بہت
بے کسوں کا مہینہ یہ رمضان ہے
فیض پاتے ہیں صائم اسی ماہ میں
رحمتوں کا مہینہ یہ رمضان ہے

92
غزل
انسان کو انسان سے ہی پیار نہیں ہے
اس قوم میں کوئی بھی وفادار نہیں ہے
یہ حسن کا بازار ہے چلتا ہے یہاں زر
دل کا یہاں کوئی بھی خریدار نہیں ہے
واقف ہے طبیعت سے مری سارا زمانہ

76
شعر کہنا یوں ہی تو نہ آیا ہمیں
جانِ من تو نے شاعر بنایا ہمیں
نیند ہم کو نہیں آئی بچپن میں جب
لوریاں گا کے ماں نے سلایا ہمیں
جب بھی کوئی خوشی ہم کو حاصل ہوئی
تیری یادوں نے آکر رلایا ہمیں

179
میری ماں کی دعا دیکھ لے
ٹل گئی ہر بلا دیکھ لے
شوق سے مجھ پہ تنقید کر
پہلے خود آئینہ دیکھ لے
میں سمندر کو پینے لگا
پیاس کی انتہا دیکھ لے

116
آپ دیوانہ کہہ کر بلاتے ہیں کیوں
مجھ کو اپنا بنا کر بھلاتے ہیں کیوں
شرم آتی ہے محفل میں گر آپ کو
بے ادب ہوکے پھر کھانا کھاتے ہیں کیوں
داد بھی کوئی جس انجمن میں نہ دے
شعر اپنے وہاں پر سناتے ہیں کیوں

2
254
جب سے ہم پاکے شہرت چمکنے لگے
سب کی نظروں میں پھر تو کھٹکنے لگے
ساری محفل پہ اک وجد طاری ہوا
سن کے میری غزل سب چہکنے لگے
کیسے منزل تلک ہم پہنچ پائیں گے
چلتے چلتے قدم بھی تو تھکنے لگے

109
کسی کو ستانے کی فطرت نہیں ہے
مجھے دل دکھانے کی عادت نہیں ہے
مجھے اپنے مولا پہ ہے جو بھروسا
کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے
سمجھنے لگا ہوں تمھیں اپنا محسن
مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے

97
جب بھی ماضی کی وہ تصویر سہانی آئی
یاد بھولی ہوئی دلکش وہ کہانی آئی
میرے آنگن کی فضاؤں کو معطر کرنے
صحنِ گلشن سے نکل رات کی رانی آئی
مشق کرنے لگا جب شعر و سخن کا میں بھی
میری غزلوں میں بھی دریا کی روانی آئی

123
جب بھی تنہائی میں تیری یاد تڑپانے لگی
پھر تری تصویر میرے دل کو بہلانے لگی
جان و دل اپنا فدا میں نے کیا جس پر سدا
بے وفائی کرکے وہ مجھ پر ستم ڈھانے لگی
ہوگئی دل کی فضا میرے اچانک خوشگوار
جب تمہاری زلف لہرائی گھٹا چھانے لگی

134
مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر راحت اندوری صاحب کو خراج عقیدت
ایک قطعہ سے
راحت تھے ایک اچھے سخنور چلے گئے
سب کی نگاہوں کے تھے جو محور چلے گئے
جانے سے ان کے بزم بھی تاریک ہو گئی
افسوس ہے وہ ماہِ منور چلے گئے

122
نہیں کھیل بچوں کا کھیتی کوئی
کسانوں کے اوپر ستم کی گھڑی
کسانوں پہ گر ظلم ڈھائے گا تو
نہ ظالم رہے گی تری رہبری
یہ فرقہ پرستوں کا دیکھو کرم
دلوں میں نہ سب کے محبت رہی

143
زندگی ملتی نہیں ہے زندگی کے شہر میں
دکھ ہی دکھ ہیں آج کل اپنی خوشی کے شہر میں
مشکلیں تو ہیں بہت دنیا کے میلے میں مگر
پاتا ہوں بے حد سکوں میں بندگی کے شہر میں
چلتے پھرتے اب غزل کہنے لگا ہوں دوستو
آگیا ہوں جس گھڑی سے شاعری کے شہر میں

125
فریب ،دھوکا ،دغا سے ہمیں بچا جائے
بہت ہے لازمی عزت سے اب رہا جائے
سخن وروں کی پرکھ کا یہ وقت ہے شاید
جو سچ ہو اس کو قلم سے سدا لکھا جائے
وہی ہے جرم سزا میں نے جس کی کاٹی ہے
سلوک ساتھ تمہارے بھی کیا کیا جائے

101
خوب تعریف کی غزلوں کی پزیرائی کی
شکریہ تم نے سدا میری شناسائی کی
جس کے بارے میں بتایا تھا مجھے لوگوں نے
بات نکلی مرے لب سے اسی ہرجائی کی
انجمن میں میں انہیں دیکھوں مجھے وہ دیکھیں
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

154
فرض اپنا بھی نبھاؤں گا چلا جاؤں گا
پیار دنیا کو سکھاؤں گا چلا جاؤں گا
کوئی بھٹکے گا نہیں راستہ اپنا ہر گز
میں پتہ سب کو بتاؤں گا چلا جاؤں گا
زندگی اپنی میں جیتا ہوں سہارے کے بغیر
بارِ غم اپنا اٹھاؤں گا چلا جاؤں گا

162
پیغام کتنے دن سے تمہارا ملا نہیں
کیا حال ہے تمہارا مجھے کچھ پتہ نہیں
ان کی حسین یاد مرے دل پہ نقش ہے
ان کا خیال دل سے کبھی بھی جدا نہیں
تعریف کر رہے ہیں سبھی آپ کی بہت
سب نے سنا ہے آپ کو میں نے سنا نہیں

95
کیا تجھ کو پتہ جانَ ادا ہے کہ نہیں ہے
ہر شخص کی آنکھوں میں دغا ہے کہ نہیں ہے
جو ہیں بڑے ان کی کبھی عزت نہیں کرتا
آنکھوں میں تری شرم و حیا ہے کہ نہیں ہے
تم چھوڑ کے الفت مری پردیس چلے ہو
میرے لئے دلبر یہ سزا ہے کہ نہیں ہے

117
مجھے اپنوں سے کچھ کہنا نہیں ہے
کسی کا ظلم بھی سہنا نہیں ہے
بسا لوں گا الگ دنیا میں اپنی
تری دنیا میں اب رہنا نہیں ہے
پھٹے کپڑوں میں رہتا ہوں ہمیشہ
لباسِ فاخرہ پہنا نہیں ہے

127
مرا جنون محبت مہان لگتا ہے
صنم کا گھر مجھے اپنا مکان لگتا ہے
ستم گروں تمہیں بلکل ترس نہیں آتا
وطن میں کتنا پریشاں کسان لگتا ہے
مدد ہماری وہ کرتا ہے وقتِ مشکل میں
عدو وہ میرا نہیں مہربان لگتا ہے

88
ہر بات کیوں انوکھی ہوتی ہے عاشقی کی
مجنوں ہوا کسی کا لیلیٰ ہوئی کسی کی
مہلت ملی ہے ہم کو تھوڑی سی اس جہاں میں
اتنی سی ہے کہانی اے یار زندگی کی
حیوان بن گیا ہے نفرت کی زہر پی کر
اس دور میں نہیں کچھ اوقات آدمی کی

1
253
یکجا کلام
نہیں زور اتنا بلاؤں میں ہے
اثر جتنا ماں کی دعاؤں میں ہے
وہ صندل بدن تھا بڑا ماہرو
مہک جس کی شامل فضاؤں میں ہے
کیا کرتے ہیں جملہ بازی بہت

5
252
ایک ادنیٰ کبھی اعلیٰ نہیں ہونے والا
اور گورا کبھی کالا نہیں ہونے والا
زیر جو کر نہیں سکتا ہے عدو کو اپنے
وہ تو سردارِ قبیلہ نہیں ہونے والا
اس قدر گہرا اندھیرا ہوا حاوی ہم پر
ایسا لگتا ہے اجالا نہیں ہونے والا

111
زندگی ملتی نہیں ہے زندگی کے شہر میں
دکھ ہی دکھ ہیں آج کل اپنی خوشی کے شہر میں
مشکلیں تو ہیں بہت دنیا کے میلے میں مگر
پاتا ہوں بے حد سکوں میں بندگی کے شہر میں
چلتے پھرتے اب غزل کہنے لگا ہوں دوستو
آگیا ہوں جس گھڑی سے شاعری کے شہر میں

76
تمہارے کاموں کا پورا حساب رکھتے ہیں
ہر اک سوال کا مسکت جواب رکھتے ہیں
سبھوں سے ملتے ہیں ہم اپنے دوستوں کی طرح
کتابِ دل میں محبت کا باب رکھتے ہیں
کچھ ایسے لوگ ہیں دنیا میں آج بھی یارو
"دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں"

221
جب سے آنکھوں میں کوئی خواب حسیں رکھا ہے
اس کی تعبیر کا تحفہ بھی کہیں رکھا ہے
جس کی فطرت ہے سدا لوگوں کو دھوکا دینا
کیوں اسے آپ نے پھر اپنا امیں رکھا ہے
سب کو دیتا ہوں محبت کا حسیں گلدستہ
جزبہ نفرت کا کبھی دل میں نہیں رکھا ہے

140
دو قدم ساتھ میں چلنے نہیں دیتا کوئی
مجھ کو کچھ کام بھی کرنے نہیں دیتا کوئی
فون کرتا ہوں تو سنتا نہیں کوئی لیکن
ملنا چاہوں بھی تو ملنے نہیں دیتا کوئی
پہلے تو ملنے پہ پابندی لگا رکھی ہے
بات بھی اس سے تو کرنے نہیں دیتا کوئی

227