غزل
انسان کو انسان سے ہی پیار نہیں ہے
اس قوم میں کوئی بھی وفادار نہیں ہے
یہ حسن کا بازار ہے چلتا ہے یہاں زر
دل کا یہاں کوئی بھی خریدار نہیں ہے
واقف ہے طبیعت سے مری سارا زمانہ
دنیا میں کسی سے مری تکرار نہیں ہے
مظلوم پہ کرتا ہے ستم جو بھی ستم گر
چلتی سدا اس کی کبھی سرکار نہیں ہے
اس کو بھلا دنیا کی خبر کیسے ملے گا
ہر روز جو پڑھتا کبھی اخبار نہیں ہے
دنیا میں مرا ساتھ نہیں دیتا ہے کوئی
اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے
الفت کی بھلا ابتدا ہو پائے گی کیسے
ہونٹوں پہ ترے پیار کا اقرار نہیں ہے
یہ زہر جدائی کا گوارا نہیں مجھ کو
عاشق ہوں ترا عشق سے انکار نہیں ہے
کوشش تجھے کرنی ہے ثمرؔ اور بھی زیادہ
یہ سچ ہے مکمل تو غزل کار نہیں ہے
سمیع احمد ثمر ؔ، سارن بہار

78