کیسا نادان ہے آتش کو لگانے والا
گھر جلا بیٹھا مرے گھر کو جلانے والا
اپنی پلکوں پہ سجاؤں تو سجاؤں کیسے
آ گیا کوئی مرے خواب اڑانے والا
زندگانی میں سوا اشک کے اب کچھ بھی نہیں
کب کا پردیس گیا مجھ کو ہنسانے والا
منتظر بیٹھا ہوں رستے میں یہی سوچ کے میں
لوٹ آئے گا کبھی روٹھ کے جانے والا
جان پائے گا نہیں کوئی بھی الفت دل کا
مجھ کو مل جائے گا جب راز چھپانے والا
دیکھ کر آئینہ محفل میں مرے ہاتھوں میں
چل دیا مجھ پہ ہی انگلی کو اٹھانے والا
کتنے ہی دیکھے حسیں ہم نے زمانے میں ثمر ؔ
پر ملا کوئی نہیں اپنا بنانے والا
سمیع احمد ثمرؔ، سارن بہار انڈیا

98