فریب ،دھوکا ،دغا سے ہمیں بچا جائے
بہت ہے لازمی عزت سے اب رہا جائے
سخن وروں کی پرکھ کا یہ وقت ہے شاید
جو سچ ہو اس کو قلم سے سدا لکھا جائے
وہی ہے جرم سزا میں نے جس کی کاٹی ہے
سلوک ساتھ تمہارے بھی کیا کیا جائے
خلاف ظلم کے کچھ بولنے کی ہمت کر
ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے
معافی کب سے طلب کر رہا ہوں میں تم سے
مجھے معاف یہ حسرت ہے کر دیا جائے
غریب اور کسانوں کی کون ہے سنتا
یہ مدعا بھی تو سنسد میں اب رکھا جائے
یہ زندگی ہے ثمرؔ اس سے کیسا گھبرانا
ہر ایک غم کو بھلا کر کے اب ہنسا جائے

97