| جب سے آنکھوں میں کوئی خواب حسیں رکھا ہے |
| اس کی تعبیر کا تحفہ بھی کہیں رکھا ہے |
| جس کی فطرت ہے سدا لوگوں کو دھوکا دینا |
| کیوں اسے آپ نے پھر اپنا امیں رکھا ہے |
| سب کو دیتا ہوں محبت کا حسیں گلدستہ |
| جزبہ نفرت کا کبھی دل میں نہیں رکھا ہے |
| گرچہ حوانیت آنے لگی اس میں پھر سے |
| میں نے انسان کی عظمت پہ یقیں رکھا ہے |
| جستجو کرتا ہوں اس کی میں بڑی مدت سے |
| وہ خزانہ جو کہیں زیر زمیں رکھا ہے |
| شہر جاں میں ہے اجالا اسی خاطر اے ثمرؔ |
| دل کے خانے میں انہیں میں نے مکیں رکھا ہے |
| سمیع احمد ثمر ؔ |
معلومات