جب سے آنکھوں میں کوئی خواب حسیں رکھا ہے
اس کی تعبیر کا تحفہ بھی کہیں رکھا ہے
جس کی فطرت ہے سدا لوگوں کو دھوکا دینا
کیوں اسے آپ نے پھر اپنا امیں رکھا ہے
سب کو دیتا ہوں محبت کا حسیں گلدستہ
جزبہ نفرت کا کبھی دل میں نہیں رکھا ہے
گرچہ حوانیت آنے لگی اس میں پھر سے
میں نے انسان کی عظمت پہ یقیں رکھا ہے
جستجو کرتا ہوں اس کی میں بڑی مدت سے
وہ خزانہ جو کہیں زیر زمیں رکھا ہے
شہر جاں میں ہے اجالا اسی خاطر اے ثمرؔ
دل کے خانے میں انہیں میں نے مکیں رکھا ہے
سمیع احمد ثمر ؔ

142