شعر کہنا یوں ہی تو نہ آیا ہمیں
جانِ من تو نے شاعر بنایا ہمیں
نیند ہم کو نہیں آئی بچپن میں جب
لوریاں گا کے ماں نے سلایا ہمیں
جب بھی کوئی خوشی ہم کو حاصل ہوئی
تیری یادوں نے آکر رلایا ہمیں
کیوں کھڑی کی ہے دیوارَ مذہب بھلا
ایک سا جب خدا نے بنایا ہمیں
وہ خدا کے سوا اور کوئی نہ تھا
جس نے فرقہ پرستوں بچایا ہمیں
وہ ترا پیار ہی تھا یقیناً صنم
تیری گلیوں میں آخر ہے لایا ہمیں
صرف تو ہی ہے وہ یار اپنا ثمرؔ
جسنے سینے سے اکثر لگایا ہمیں
سمیع احمد ثمر ؔ

188