| ان اندھیروں سے یہاں لوگ جو ڈر جاتے ہیں |
| شام ہوتے ہی وہی لوٹ کے گھر جاتے ہیں |
| فصل جو لوگ اگاتے ہیں یہاں کھیتوں میں |
| یہ بھی سچ ہے کہ وہی بھوک سے مر جاتے ہیں |
| ہر جگہ آپ کا رتبہ ہے زمانے بھر میں |
| ہم جھکائے ہوۓ دربار میں سر جاتے ہیں |
| کاش یہ خواب حقیقت میں بدل جاۓ کبھی |
| خواب بنکر تری آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں |
| جو ہوا دیتے ہیں نفرت کو زمانے بھر میں |
| میری نظروں سے وہی لوگ اتر جاتے ہیں |
| ایسے لوگوں پہ بھروسہ نہیں کرنا ہرگز |
| کرکے وعدہ یہاں جو لوگ مکر جاتے ہیں |
| رحم کر یا خدا نادان ہیں تیرے بندے |
| تو ہے راضی تو وبا سے یہ گزر جاتے ہیں |
| ساتھ ہوتی ہیں مسرت کی حسیں سوغاتیں |
| ہم جو محفل سے تری اٹھ کے ثمر جاتے ہیں |
معلومات