ایک ادنیٰ کبھی اعلیٰ نہیں ہونے والا
اور گورا کبھی کالا نہیں ہونے والا
زیر جو کر نہیں سکتا ہے عدو کو اپنے
وہ تو سردارِ قبیلہ نہیں ہونے والا
اس قدر گہرا اندھیرا ہوا حاوی ہم پر
ایسا لگتا ہے اجالا نہیں ہونے والا
گھول کے تم نے نمک رکھا ہے جس میں وہ تو
میٹھے پانی کا پیالہ نہیں ہونے والا
روٹیاں جل گئیں اب کھاؤں تو کھاؤں کیسے
ایک ٹکڑا بھی نوالہ نہیں ہونے والا
اپنے کاندھوں پہ لئے پھرتا ہوں میں گھر کو ثمرؔ
*میرے حصے میں قبالہ نہیں ہونے والا*
سمیع احمد ثمرؔ ، سارن ، بہار

112